فوجی آمریت کیخلاف وارث میر کی جدوجہد کی کہانی
تحریر : عامر میر
مارشل لاء ادوار خصوصاً جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کی ’’پابند صحافت اور سیاست ‘‘ کے عام رجحانات سے بغاوت کر کے اپنے نظریات کو جرأت اور سچائی کے ساتھ بیان کرنا اور پھر ان پر قائم رہنا کس قدر دشوار اور جان سے گزر جانے والی دیوانگی ہے، اس کا ادراک ضیاء دور میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے صحافی اچھی طرح رکھتے ہیں۔
ایسے ہی ایک دیوانے قلمکار اور دانشور پروفیسر وارث میر(Waris Mir) بھی تھے جنہوں نے اپنی زندگی آزادئ اظہار اور حریت فکر کی جنگ لڑتے ہوئے بسر کی۔
پروفیسر وارث میر(Waris Mir) کے اپنے الفاظ میں ’’زندہ قوم کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو پابندیوں اور قدغنوں کی کتنی ہی بیڑیاں کیوں نہ پہنا دی جائیں، ان کے منہ پر کتنے ہی تالے کیوں نہ لگا دئیے جائیں، وہ کسی نہ کسی طریقے سے آہ یا سسکی بھر کر احتجاج کا اظہار کر ہی دیتے ہیں۔
زنجیروں میں جکڑے ہوئے صاحب قلم و مطالعہ کے دل میں زنجیروں کو توڑ دینے کی خواہش، نیت کی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ موجود ہو تو اس سے ہر حلقۂ زنجیر کو زبان ملتی ہے۔
ویسے بھی ایک سچا لکھنے والاکسی کا ایجنٹ یا آلۂ کار نہیں بن سکتا، کیونکہ لکھنے والے کا تعلق انسانیت اور اپنے معاشرے کے بہتر مستقبل سے ہوتا ہے۔
وہ اعلیٰ انسانی قدروں، حسن، خیر ، امن، اعتدال اور وطن سے محبت کا پرچارک ہوتا ہے اور وہ انقلاب کے لئے کلاشنکوف یا میزائل چلانے کی بجائے اپنا قلم چلاتا ہے جسے وہ عوام کی امانت سمجھ کر استعمال کرتا ہے‘‘۔
اپنے دور میں حریت فکر کی چومکھی جنگ لڑنے والے پروفیسر وارث میر(Waris Mir) کا مؤقف تھا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل فکر و دانش کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
وہ سمجھتے تھے کہ یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو گا، اسی قدر تیزی سے وہ قوم ترقی کی منازل طے کرے گی لیکن جس قوم کا دانشور طبقہ اپنے کردار سے غافل ہو جائے یا اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنے لگے۔
آرمی چیف کا نیول، ایئر ہیڈ کوارٹرز، کورہیڈکوارٹر راولپنڈی کا دورہ
اس کے زوال کے امکانات بھی اسی قدر بڑھ جاتے ہیں۔ پروفیسر وارث میر کی تحریروں میں پڑھنے والوں کو جگہ جگہ حریت فکر کے علمبرداروں سے ملنے کا موقع ملے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی حریت فکر کے ایک راہی تھے اور فکر اور سوچ پر پہرے کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔
حریت فکر سے متعلق ان کی تحریروں میں ان دانشوروں کی جدوجہد کے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذہن و ضمیر پر پہرے قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ انہیں اس عمل کی بھاری قیمت اد ا کرنا پڑی۔
یہ وہ دانشور اور لکھاری تھے جنہوں نے اپنے اپنے عہد میں وقت کے جبر کے خلاف فکر، شعور اور عزم و ہمت کی تلوار سے جنگ لڑی اور ضمیر کی شمع کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تھمانے کا فرض ادا کرتے رہے۔
پروفیسر وارث میر(Waris Mir) نے بے لاگ اور بے باک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی اور اس کو نئی جان و جہت عطا کی۔ آج تین دہائیوں بعد بھی وارث میر کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظرآتا ہے اور وہ آج کے حالات میں بھی تازہ اور بر محل محسوس ہوتی ہیں۔
اپنی تحریروں میں وارث میر نے جہاں ان خوشامدی سیاستدانوں، صحافیوں اور ادیبوں کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے دنیاوی عہدوں اور آسائشوں کے حصول کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کیا، وہیں انہون نے ماضی کے ان باضمیر اور باکردار دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کے بارے میں بھی بتایا ہے جو حریت فکر کے راہی ٹھہرے اور جنہوں نے تمام ترلالچ اور دبائو کے باوجود ببانگ دہل سچ لکھا اور کسی دنیاوی مصلحت کا شکار ہونے سے انکاری رہے۔
دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتاہے کہ وارث میر(Waris Mir) جیسا ہر سچا دانشور لکھاری، صحافی اور ناقد، جس نے باغیانہ روش اپناتے ہوئے اپنے دور کے مروجہ دقیانوسی نظام اور اس کے پس پردہ کرداروں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔
اُسے رد عمل میں ہر طرح کی مخالفت، مشکلات اور حتیٰ کہ فتوئوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس امتحان میں سرخرو وہی اہل قلم و دانش گردانے گئے جو اپنے موقف کی سچائی پر قائم رہے اور اس جدوجہد میں اپنی جان سے گزر گئے۔
پروفیسر وارث میر کی زیادہ تر تحریریں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء دورہی کی تخلیق ہیں جب صحافت پابند سلاسل تھی اورترقی پسندی، حریت اور خرد سے متعلق لکھنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا جاتا تھا۔
غداری کی یہ تہمت وارث میر پر بھی لگائی گئی لیکن جون 2020 میں سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں نے ان کے خلاف ایسے بیہودہ فتوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ان کے حق میں قراردادیں منظور کر کے ان کے نظریاتی مخالفین کو جھوٹا ثابت کر دیا۔
ضیا ء دور میں روزنامہ جنگ کے لکھے گئے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ہرچند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ میں پروفیسر وارث میر(Waris Mir) لکھتے ہیں: ’’مسلمان معاشرے نے اپنے سیاسی عروج میں یقینا ایسا علم پرور ماحول مہیا کیا تھا جس کی گود میں بڑے بڑے تخلیقی مفکرین اور روایت شکن دانش ور پروان چڑھے۔ ایسے دانشور جنہوں نے وقت کے حاکموں کے نظریات اور خیالات کو چیلنج کیا۔
ان سے اختلاف کیا اور معاشرے کو سرکاری سانچے میں ڈھالنے کی کوششوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ ان کے شعور اور سچائی کے ساتھ ان کی کمٹ منٹ نے سٹیٹ مشینری کے ظلم و ستم برداشت کیے لیکن اقتدار و سیاست کی مصلحتوں کی آہنی ٹوپی اپنے سر پر پہننے سے انکار کردیا‘‘۔ اپنے ایک مضمون میں جدید علوم کے مخالف رجعت پسند جہادی ملائوں پرتنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’میں ان علما ء سے اتفاق نہیں کرتا جو قرآن پاک کی آیات میں سائنسی فارمولے تلاش کرتے پھرتے ہیں، بجائے اس کے کہ سائنسی فکر اپنائیں اور زندگی کی سچائیاں تلاش کریں۔
‘‘ انہوں نے مزید لکھا: ’’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں فوج اور اس کی وساطت سے بیوروکریسی کی حکومت ہے اور بیسویں صدی کی سیاست کے سیانوں کا کہنا ہے کہ جو حکومت فوج کی گردن پر سوار ہو کر قائم ہوتی ہے، اسے مارشل لا ء کا شیر نیچے اترنے کی مہلت نہیں دیتا۔ پاکستان کے علاوہ کئی دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی حکمرانی کے جھولے لینے والے فوج کے شیر ہی پر سوار ہیں اور وہ نیچے اترنے کے لئے اس وقت تک تیار نہیں جب تک عوام اس شیر کو بھی شریک ِ اقتدار کرلینے کی ضمانت دے کر اس کی جان کو محفوظ نہیں کرلیتے۔‘‘
انہی تحریروں کے نتیجے میں ضیاء الحق کے پریس سیکرٹری اور اس دور کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر بریگیڈئیر صدیق سالک نے پروفیسر وارث میر(Waris Mir) پر دباؤ ڈالنے کے لئے یہ پیغام دیا کہ ایک سرکاری ملازم کو سرکار پر اس طرح کھلی تنقید کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس وقت وارث میر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے۔ یاد رہے کہ میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے ضیاء دور بدترین گردانا جاتا ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد تھی، اخبارات سنسرشپ کا شکار تھے، باضمیر صحافیوں کو کوڑے مارے جاتے تھے اور بے ضمیروں کو معتبر مانا جاتا تھا، یعنی صحافیوں کو پالنے اور ان سے خوشامدی تحریریں لکھوانے کا حکومتی عمل اپنے عروج پر تھا۔ مذہب کے نام پر ایک خاص قسم کی ملائیت کو فروغ دیا جارہا تھا۔
جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ مارشل لاء حکومت کے پالے ہوئے مولوی، اجتہاد اور حقوق نسواں کی بات کرنے والوں پر کفر کے فتوے عائد کر رہے تھے اور ضیا ایک طویل عرصہ تک اقتدار پر قابض رہنے کے خواب دیکھ رہا تھے۔ تاہم تمام تر حکومتی دبائو کے باوجود، وارث میر کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے۔ اس دوران ضیاء جنتا کے دباؤ کے پیش نظر نوائے وقت میں ان کی تحریروں پر سنسر شپ کی قینچی زیادہ تیزی سے چلنا شروع ہوئی تو وارث میر 1985 میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہو گئے اور نوید فکر کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کر دیا۔
اس دور میں انہوں نے اسلامی تاریخ کے حوالے دے کر بین السطور اپنا پیغام آگے پہنچایا۔ اپنی تحریر بعنوان ’’ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ میں وارث میر لکھتے ہیں: ’’واضح رہے کہ مسلمانوں میں تحقیق و جستجو اور فلسفہ و سائنس کو یہ عروج اس عہد میں حاصل ہوا جب مسلمان اقوام عالم میں ایک غالب سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کئے جاتے تھے۔ گویا سیاسی اور اقتصادی طور پر آزاد قوم ہی دوسری قوموں کی فکری امامت کرتی ہے اور غلام اور زوال پذیر قوم کی سیاست و حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے افکار بھی گھٹ کر رہ جاتے ہیں، وہ آگے بڑھنے کی بجائے، ماضی کی طرف بھاگتے ہیں‘‘۔ اسی طرح روزنامہ جنگ ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وارث میر نے لکھا: ’’میرا یہ یقین ہے کہ اس جامد نظام کی تبدیلی تک کہ جس میں فکر محبوس ہو اور اظہار پابند، انسانیت کی فلاح سے وابستہ کوئی بھی مسئلہ قابل حل نہیں”۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’’زندگی متحرک اور ارتقاء پذیر ہے۔ جو قوتیں اس ارتقاء میں معاون ثابت ہوتی ہیں، ترقی پسند ہیں اور جو اس عمل کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں، رجعت پسند ہیں‘‘۔
ضیا دور میں تمام تر دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود وارث میر کے قلم کی کاٹ بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ حریت فکر کے پُر خطر سفر میں پیش آنے والے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے لیکن حق اور سچ گوئی کی جنگ میں پیچھے ہٹنا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ وارث میر جس راستے پر سفر کر رہے تھے، وہ پر خار اور دشوار تھا لیکن وہ اس پر گامزن رہے، چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سچائی کا راستہ تھا چنانچہ وہ اس پر خطر سفر پر اپنے نظریات کے مطابق پوری کمٹ منٹ سے گامزن رہے اور 9 جولائی 1987 کو پراسرار حالات میں صرف 48 برس کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔ لیکن جسمانی طور پر اس جہان فانی سے گزرجانے کے باوجود وارث میر اپنی تحریروں کی بدولت آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
پروفیسر وارث میر کی قومی خدمات کے اعتراف میں انہیں ہلال امتیاز بعدازمرگ سے نوازا گیا. 2020 میں جب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک حکومتی وزیر نے 1971 کے فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے پر پروفیسر وارث میر کو غدار وطن قرار دیا تو پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں نے اس عظیم دانشور کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے حق میں قرارداد منظور کیں اور ان کے خلاف دیا جانے والا غداری کا فتویٰ سختی سے رد کر دیا۔